اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نااہلی کی درخواستیں مسترد کرنے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جس میں لکھا کہ بطور جج منتخب نمائندوں پر بالادستی کا دعویٰ نہیں، صادق اور امین کا اعلیٰ پیمانہ منتخب نمائندوں کے علاوہ کسی آفس ہولڈر کے لیے موجود نہیں ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ پیمانہ ان غیرمنتخب لوگوں کے لیے بھی نہیں جن کی حکومت میں اس ملک کی آدھی عمر گزری، 62 ون ایف کے تحت نااہلی کے گہرے اثرات ہوتے ہیں، پارلیمنٹ نمائندوں کی خود احتسابی کا اپنا مکینزم بنا سکتی ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خواجہ آصف کو اسی عدالت نے نااہل قرار دیا تھا، 7 ماہ بعد سپریم کورٹ نے ان کی اپیل منظور کرلی، اس دوران خواجہ آصف کے حلقے کے عوام نمائندگی سے محروم رہے، یقیناً اس دوران خواجہ آصف کو سیاسی نقصان اور بدنامی کا سامنا بھی رہا۔

عدالت کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نااہلی کا فیصلہ دینے میں کسی بھی غلطی سے ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے، عوام کو ہی اختیار ہونا چاہیے، وہ فیصلہ کریں ان کی نمائندگی کون کرے گا، اکیلے عوام ہی طے کر سکتے ہیں کون صادق اور امین ہے۔